ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں
لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں
ہم اپنا نام لے کے خود اپنے ہی شہر میں
گھر گھر پکار آئے کھلا کوئی در کہاں
جیسے ہر ایک در پہ خموشی کا قفل ہو
اب گونجتی ہے شہر میں زنجیر در کہاں
ہر وقت سامنے تھا سمندر خلوص کا
لیکن کسی نے دیکھا کبھی ڈوب کر کہاں
جو چاہو بھی تو جسم سے نکلو گے کس طرح
محبس میں سانس کے کوئی دیوار و در کہاں
اس سخت دوپہر میں کہاں جا کے بیٹھیے
راہوں میں دور تک صبا! کوئی شجر کہاں
صبا اکرام
No comments:
Post a Comment