Monday, 31 July 2023

ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں

 ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں

لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں

ہم اپنا نام لے کے خود اپنے ہی شہر میں

گھر گھر پکار آئے کھلا کوئی در کہاں

جیسے ہر ایک در پہ خموشی کا قفل ہو

اب گونجتی ہے شہر میں زنجیر در کہاں

ہر وقت سامنے تھا سمندر خلوص کا

لیکن کسی نے دیکھا کبھی ڈوب کر کہاں

جو چاہو بھی تو جسم سے نکلو گے کس طرح

محبس میں سانس کے کوئی دیوار و در کہاں

اس سخت دوپہر میں کہاں جا کے بیٹھیے

راہوں میں دور تک صبا! کوئی شجر کہاں


صبا اکرام

No comments:

Post a Comment