Friday, 28 July 2023

دریا نہ تھا عاشور کی شب کی ہے یہ بات

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


دریا نہ تھا عاشور کی شب کی ہے یہ بات

چہرے پہ زمیں کے اک آنسو تھا فرات

دریا میں پچھاڑیں کھا رہا تھا سیلاب

اور رہ رہ کے دہاڑیں مارتا تھا سب آب

ہاں ٹوٹ کے اور پھوٹ کے روتے تھے حباب

دامانِ خلا پر جو وہ ہر سو تھے نجوم

افلاک کے ٹپکے ہوئے آنسو تھے نجوم

آنسو تھے نجوم اور تھے بادل رومال

اب عالم بالا کا کہوں کیا احوال

تھے چرخ چہارم پہ مسیحا بے حال

روتے تھے کہ مشکل میں محمدؐ کا ہے لال


صادقین امروہوی

صادقین احمد نقوی

No comments:

Post a Comment