عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
دریا نہ تھا عاشور کی شب کی ہے یہ بات
چہرے پہ زمیں کے اک آنسو تھا فرات
دریا میں پچھاڑیں کھا رہا تھا سیلاب
اور رہ رہ کے دہاڑیں مارتا تھا سب آب
ہاں ٹوٹ کے اور پھوٹ کے روتے تھے حباب
دامانِ خلا پر جو وہ ہر سو تھے نجوم
افلاک کے ٹپکے ہوئے آنسو تھے نجوم
آنسو تھے نجوم اور تھے بادل رومال
اب عالم بالا کا کہوں کیا احوال
تھے چرخ چہارم پہ مسیحا بے حال
روتے تھے کہ مشکل میں محمدؐ کا ہے لال
صادقین امروہوی
صادقین احمد نقوی
No comments:
Post a Comment