Friday 28 July 2023

حلقۂ کفر سے یوں حر دلاور نکلے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


حلقۂ کُفر سے یوں حُرِ دلاور نکلے 

جس طرح آبِ رواں کاٹ کے پتھر نکلے

جن کے چہروں پہ بظاہر تھی شریعت کی نقاب

آستینوں میں چُھپائے ہوئے خنجر نکلے

آخری خطبۂ شبیرؑ سے رن کانپ اٹھا

لب کے الفاظ کہ شمشیر سے جوہر نکلے

مال اسلام نے بانٹا تو ہزاروں آئے

خون اسلام نے مانگا تو بہتّر نکلے

آج تک فیضِ حسینؑ ابنِ علیؑ جاری ہے

قطرے قطرے کو جو ترسے وہ سمندر نکلے

ہم سے عاجز سے ادا ہو نہ سکا مدح کا حق

لفظ ہر رنگ میں جذبات سے کم تر نکلے

اس کو کہتے ہیں مقدر کی بلندی ساغر

حُر کا دم زانوئے شبیرؑ کے اوپر نکلے


ساغر مہدی

No comments:

Post a Comment