نہ کربِ ہجر نہ کیفیتِ وِصال میں ہوں
مجھے نہ چھیڑئیے اب میں عجیب حال میں ہوں
تمام رنگ عبارت میں سوزِ جاں سے مِرے
میں حسنِ ذات ہوں اور منزلِ جمال میں ہوں
مِرا وجود ضرورت ہے ہر زمانے کی
میں روشنی کی طرح ذہنِ ماہ و سال میں ہوں
ابھی وسیلۂ اظہار ڈھونڈتی ہے نگاہ
ابھی سوال کہاں حسرتِ سوال میں ہوں
مجھے نہ دیکھ مِری ذات سے الگ کر کے
میں جو بھی کچھ ہوں فقط اپنے خد و خال میں ہوں
میں جی رہا ہوں یہ میرا کمال ہے حشری
میں اپنے عہد کی تہذیب کے زوال میں ہوں
عابد حشری
No comments:
Post a Comment