عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ہے شہادت کہ ہلاکت کہ اجل بولتی ہے
مرضئ رب سرِ میدانِ جدل بولتی ہے
یہ زباں حق کی زباں ہے دم گفتار تو ہو
پھر ہو دربار، کہ مقتل، کہ محل بولتی ہے
ایک وعدہ ہے فقط وعدۂ طفلیِ حسینؑ
جس کو قاموسِ تغیّر بھی اٹل بولتی ہے
فجر کا وقت ہے عاشور ہے سناٹا ہے
کس خموشی سے یہاں صبح ازل بولتی ہے
جنگجو کہہ کے بلاتا ہے مِرا آج مجھے
خود کو خوشبوئے شہادت مِرا کل بولتی ہے
رن میں ہے صاحبِ اسرارِ بلاغت کا پسر
وہ رجز پڑھتا ہے، شمشیرِ اجل بولتی ہے
آسماں لال نظر آتا ہے جو شام کے وقت
آنکھ اسے خون کی سرخی کا بدل بولتی ہے
بال بکھرائے ہیں ترتیب و تبدّل کی خطیب
اور سرِ خانۂ تخریب و خلل بولتی ہے
میں نے بس شعر کہے، شعر سنے، شعر لکھے
داورِ حشر! مِری فردِ عمل بولتی ہے
اے غزل گو! کبھی سن مرثیۂ میر انیس
ایک مصرعے میں یہاں پوری غزل بولتی ہے
عارف خواجہ
No comments:
Post a Comment