نعم البدل نہیں تِرا اے یار کوئی اور
دنیا میں تجھ سا ہے کہاں دلدار کوئی اور
سانسوں کو ہے فقط تِری خوشبو کی لت لگی
بھائے گی کس طرح مجھے مہکار کوئی اور
شاید اسی کو کہتے ہیں یکجان دو بدن
بیمار کوئی اور اشکبار کوئی اور
مجھ کو گنوا کے عمر بھر روتے رہو گے تم
ہو گا نہ مجھ سا تیرا طلبگار کوئی اور
جو دل میں بات ہے اُسے کہہ دو بِلا جھجک
ایسا نہ ہو کہیں کرے اظہار کوئی اور
ہجر و وصال یار پہ لکھتا ہوں گاہ گاہ
اے ہم سخنو ہے مِرا معیار کوئی اور
شاہد لگا ہے ایک تماشا سرِ دیوار
ہے ایک تماشا پسِ دیوار کوئی اور
شاہد حسین
No comments:
Post a Comment