عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
یہ مانتا ہوں وہ کربلا کا شہیدِ اعظم خدا نہیں ہے
بقا خدا کے لیے ہے لیکن حسینؑ کو بھی فنا نہیں ہے
بھرے ہیں شیر خدا کے جذبے جری کے دل میں لہو کی صورت
وفائے عباسؑ اور کیا ہے? اگر علیؑ کی دعا نہیں ہے
کبھی ہٹی تھی جو سر سے چادر تو مہر نے منہ چھپا لیا تھا
فلک کی بھی ہے عجیب گردش کسی کے سر پر ردا نہیں ہے
نصیریو! یہ خیالِ باطل تمہیں ڈبو کر رہے گا اک دن
جسے خُدا تم سمجھ رہے ہو خدا نما ہے خدا نہیں ہے
مقام طاعت پہ وقت سجدہ گواہ ہے شان حُریت کی
بجز خدا اور کسی کے آگے حسینؑ کا سر جُھکا نہیں ہے
حسینؑ مقتل سے آ رہے ہیں لیے ہوئے لاش نوجواں کی
یہاں تو رکتے ہیں انبیاء بھی، کہ عام یہ راستہ نہیں ہے
علیؑ کی الفت میں مرنے والا شہید ہے اتنا جانتا ہوں
سعید مل جائے یہ سعادت بس اور کچھ مدعا نہیں ہے
سعید شہیدی
No comments:
Post a Comment