Thursday, 27 July 2023

جب نکلا شیر خیمہ سے مشک و علم لیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


جب نکلا شیر خیمہ سے مشک و علم لیے

بچوں کی العطش کی صدائیں بہم لیے

جعفرؑ کا رعب شیر خداؑ کا حشم لیے

فتح و ظفر نے سر پہ جری کے قدم لیے

نظریں جمیں ترائی پہ، جس دم دلیر کی

لشکر میں غُل ہوا اب آمد ہے شیر کی


تھی تشنگی سکینہؑ کی جو مرکز خیال

بُھولا ہوا تھا سارے زمانے کو خوش خصال

آنکھوں سے اشک بہہ رہے تھے دل جو تھا نڈھال

ادنیٰ سا یہ تصور صادق کا تھا کمال

پانی کے انتظار میں آنسو بہاتی تھی

ہر قطرے میں سکینہؑ نظر صاف آتی تھی


کرتے ہیں وار جوش میں عباسؑ نامور

غیض و غضب میں گاہ اِدھر اور کبھی اُدھر

اِس کو کیا جو قتل اُس یل کی لی خبر

پلٹے جو میمنہ سے کِیا میسرے کو سر

گنجائشیں تھیں فوجِ ستمگر کے قلب میں

دل لگ گیا در آئے جو لشکر کے قلب میں


جان وفا نے مشک کو گرنے نہیں دیا

تسمہ کو اپنے دانتوں میں جلدی دبا لیا

کہتے ہوئے یہ خیمہ سرورؑ کا رخ کیا

میں کیا کروں سکینہؑ مقدر بگڑ گیا

باقی نہ تن میں خوں ہے نہ اب کوئی ہاتھ ہے

پھر بھی تمہاری مشک مرے دم کے ساتھ ہے


آخر اٹھے کہا مِرے جرغام الوداع

اے میری جان اے مِرے گلفام الوداع

تم میرے دل کا لے گئے آرام الوداع

دیتے ہو کچھ سکینہؑ کو پیغام الوداع

یہ سن کے تڑپی لاش عملدارِ شاہؑ کی

گو مر چکے تھے جوشِ وفا میں ایک آہ کی


گوہر خموش مرثیہ ہوتا ہے اب طویل

خیمہ کی سمت جا رہے ہیں سید جلیلؑ

پہلا ہی مرثیہ تِرا بے مثل بے عدیل

کر یہ دعا کہ شاہ زمنؑ ہوں تِرے کفیل

فانوس نو تو بزم جناب رشید ہے

یعنی گل ریاض جناب شدید ہے


گوہر لکھنوی

No comments:

Post a Comment