میرے اشکوں کی نمی بھی نہیں رہنے والی
سُوکھ ہی جائے گی یہ جھیل بھی بہنے والی
ہم میں اس ترکِ تعلق کا خطا وار تھا کون
چھوڑئیے اب یہ کہانی نہیں کہنے والی
دِل میں اک فقرہ اُتر جاتا ہے خنجر کی طرح
دوست! ہر بات تو ہوتی نہیں سہنے والی
اُف یہ شدت کا کرم، دوست مجھے لگتا ہے
چودھویں چاند کی یہ وضع ہے گہنے والی
جس کو جذبات کی یورش سے بچا رکھا تھا
اب تو وہ صبر کی دیوار ہے ڈہنے والی
بولتے بولتے خاموش ہُوا کیوں اطہر
بات شاید نہیں سُوجھی کوئی کہنے والی
اطہر شکیل
No comments:
Post a Comment