روز جینے روز مرنے سے اندازہ لگا مجھے
یہ عشق کسی بد دعا کا خمیازہ لگا مجھے
تیری کوئی یاد دبے پاؤں اندر آئی ہے
ہلکا سا کھلا ہوا دل کا دروازہ لگا مجھے
اتنی مانوسیت کا احساس ہوا یہاں آ کر
صحرا اپنا بکھرا ہوا شیرازہ لگا مجھے
اک فقیر آج دیکھا دن میں جلاتے چراغ
اپنی طرح وہ عشق کا نوازہ لگا مجھے
وفا کا زخم پرانا ہے اسے چھوڑ طبیب
کچھ کر زخمِ جدائی کا جو تازہ لگا مجھے
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment