یوں مجھے چھوڑ کے بیتاب کہاں جاتے ہیں
سوچتا ہوں مِرے احباب کہاں جاتے ہیں
چاند جیسے ہی اُترتا ہے مِرے کمرے میں
نیند جاتی ہے کہاں، خواب کہاں جاتے ہیں
ایک منظر میں انہیں دُور سے جاتے دیکھا
میں یہیں ہوں، مِرے اعصاب کہاں جاتے ہیں
بات کرتے ہوئے آداب بجا لاتے ہو
شعر سنتے ہوئے آداب کہاں جاتے ہیں
رات بھر دُور خلاؤں میں کھڑے رہتے ہیں
پھر یہی انجم و مہتاب کہاں جاتے ہیں
وہ جو مُنکر تھا، یہی بات کہا کرتا تھا
وقت آنے پہ یہ ارباب کہاں جاتے ہیں
رضا حسن فاروق
No comments:
Post a Comment