عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
حق کا پیغام زمانے کو سُنایا تُو نے
اَوج پر خاک نشینوں کو بٹھایا تُو نے
کام دشوار جو تھا کر کے دِکھایا تُو نے
دے کے سر حق و صداقت کو بچایا تُو نے
کِشت اِسلام کو سر سبز بنایا تُو نے
مرحبا حق کے پرستار تِرا کیا کہنا
نوعِ انسانی کے سردار تِرا کیا کہنا
فکرِ کے قافلہ سَالار تیرا کیا کہنا
اے صداقت کے علَم دار تیرا کیا کہنا
ظرفِ انسانی کا معیار دِکھایا تُو نے
ایک وہ وقت کہ انسان ہوا تھا گُمراہ
بھُولے بھٹکوں کےلیے بن گیا تُو مشعل راہ
اے کہ مرعوب تجھے کر نہ سکی حشمت و جاہ
تُو کہ خاطر میں نہ لایا کبھی دشمن کی سپاہ
اپنے وعدے کو بصد عزم نبھایا تُو نے
منزلِ صبر کے سالار حسینؑ ابن علیؑ
اے رہِ حق کے علمدار حسینؑ ابن علیؑ
واقف و محرمِ اسرار حسینؑ ابن علیؑ
میرے آقاؑ میرے سردار حسینؑ ابن علیؑ
خوابِ غفلت سے زمانے کو جگایا تُو نے
لہلہاتا ہوا ملت کا علَم آج بھی ہے
رہبر زیست تیرا نقش قدم آج بھی ہے
یہ بجا ظلم تو مائل بہ ستم آج بھی ہے
آدمیت پہ مگر تیرا کرم آج بھی ہے
ڈوبتی کشتیِ اُمت کو بچایا تُو نے
عاشور کاظمی
No comments:
Post a Comment