عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
منتظر دونوں عالم تھے جن کے لیے آئے وہ اور پھیلی خوشی ہر طرف
ان کے آتے ہی ظلمت کے بادل چھٹے، چھائی توحید کی روشنی ہر طرف
آئے جبریلؑ نُوری سواری لیے لا مکاں کی طرف مصطفیٰﷺ چل دئیے
فرش سے عرش تک نُور ہی نُور تھا دونوں عالم میں تھی سرخوشی ہر طرف
نُور کیسا وہ غار حِرا سے چلا، آج تک جس کی نُورانیت کم نہیں
کتنے سینوں میں وہ نُور محفوظ ہے چھن رہی ہے وہی روشنی ہر طرف
تاجدار مدینہ چلے بدر کو تین سو تیرہ نُوری سپاہی لیے
اترے جبریلؑ ملکوتی لشکر لیے، کِھل اٹھی فتح کی چاندنی ہر طرف
جب اُحد میں مِرے آقاؐ زخمی ہوئے کھلبلی مچ گئی سارے اصحاب میں
چاند طیبہ کا پل بھر کو کیا چُھپ گیا، چھا گئی تھی فضا ماتمی ہر طرف
یہ لعاب نبیؐ کا ہی اعجاز تھا، دُکھتی آنکھیں علیؑ کی بھلی ہو گئیں
باب خیبر اُکھاڑا بچشم زدن، گونج اُٹھا نعرۂ حیدریؑ ہر طرف
سبز گُنبد کی رعنائیاں کیا کہوں، منبع نُور ہے قبلہ اہل دل
یاں وہ آرام فرما ہیں جن کے لیے رب نے تخلیق کی زندگی ہر طرف
عرس سید میاں کا وہ شہرہ ہوا، اس قدر رعب برکاتیت کا پڑا
سارے دشمن پریشان و حیران ہیں، ان کے حلقوں میں ہے کھلبلی ہر طرف
نظمی! تیرے لیے نعت نعمت بنی یہ بھی میم محمدﷺ کا اعجاز ہے
نُور و نکہت کا حامل ہے تیرا قلم، کر رہا ہے جو ذکر نبیؐ ہر طرف
سید نظمی مارہروی
No comments:
Post a Comment