عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کچھ نے کہا کہ اس طرح کچھ کا تھا فیصلہ کہ یوں
مر کے مگر حسینؑ نے جینا سکھا دیا کہ یوں
صبر کی ڈھال تیغ کو کرتی ہے کُند کس طرح
کوئی اگر یہ سن سکے کہتی ہے کربلا کہ یوں
دشت کی کیا بساط تھی، پانی کی کیا مجال تھی
اہلِ رضا کو علم تھا اس کی ہے یہ رِضا کہ یوں
فتح و شکست و مرگ و زیست کیسے بدلتے ہیں مقام
سرِ حیات کر دیا اہلِ جہاں پہ وا، کہ یوں
اپنے لہو سے با وضو ہو کے نمازِ عشق کا
دیکھ جبینِ عصر دیکھ ہوتا ہے حق ادا کہ یوں
شکیل جاذب
No comments:
Post a Comment