عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
ظالم کی یہ روش کہ جفا پر جفا رہے
مظلوم کی ہے فکر وفا پر وفا رہے
لازم ہے حق کے سامنے یوں سر جھکا رہے
آ جائے گر قضا بھی تو سجدہ ادا رہے
گر چاہتے ہو نسل کا سونا کھرا رہے
لازم ہے آل پاکؑ سے بھی رابط رہے
فردوس کے لیے بھی کوئی راستہ رہے
غیر از حسینؑ کون ہے وہ جس کے واسطے
اللہ کا رسولﷺ بھی ناقہ بنا رہے
سمجھے گا کون اُس کے حدِ اقتدار کو
قبضہ میں جس کے زلف رسولؑ خدا رہے
اس واسطے جھلانے لگے جھولا جبرئیلؑ
زہراؑ کے در پہ آنے کا رستہ کُھلا رہے
گر چاہتا ہے ملک میں سردار کے قیام
رضواں کا ہے یہ فرض کہ درزی بنا رہے
پشت نبیؑ پہ اس لیے بیٹھے رہے حسینؑ
اللہ کے رسولﷺ کا سجدہ رُکا رہے
صبر حسینؑ سارے زمانہ پہ چھا گیا
ظلم یزید جائے پنہ ڈھونڈتا رہے
اسلام کی بہار ہے دم سے حسینؑ کے
یا رب گلِ ریاض مدینہ کِھلا رہے
شبیرؑ نے عطش کو بھی دریا بنا دیا
اب تشنہ لب زمانے کا ہر بے وفا رہے
لازم ہے یہ کہ ہوتا رہے ماتم حسینؑ
یعنی ضمیر نوعِ بشر جاگتا رہے
اسلام کو حیات ملی کربلا کے بعد
اسلام بھی رہے گا اگر کربلا رہے
کلیم الہ آبادی
ذیشان حیدر جوادی
No comments:
Post a Comment