Thursday, 27 July 2023

لب پر شہداء کے تذکرے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


لب پر شہداء کے تذکرے ہیں

لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں

جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو

ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں

میدان کا دل دہک رہا ہے

دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں

کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے

جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں

پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے

چُلّو بچوں کے بھر دئیے ہیں

آثار جوان بھائیوں کے

بہنوں نے زمیں سے چُن لیے ہیں

بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم

ماؤں نے رِدا میں بھر لیے ہیں

یہ لوگ اصولِ حق کی خاطر

سر دیتے ہیں، جان بیچتے ہیں

میدان سے آ رہی ہے آواز

جیسے شبیرؑ بولتے ہیں

جیسے غُنچے چٹک رہے ہیں

جیسے کُہسار گُونجتے ہیں

"ہم نے جنہیں سر بلندیاں دیں"

سر کاٹتے کیسے لگ رہے ہیں

ہیں یہ رگِ نبیﷺ کے قطرے

جو ریت میں جذب ہو رہے ہیں

دیکھو، اے ساکنانِ عالم

یوں کِشتِ حیات سینچتے ہیں


احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment