عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
آہوئے کعبہ قربانئ داور ہے حسینؑ
فدیۂ اُمتِ مرحومِ پیمبرﷺ ہے حسینؑ
بیکس و بے وطن و بیدل و بے پر ہے حسینؑ
صبرِ ایوبؑ کی شمشیر کا جوہر ہے حسینؑ
گو کہ تلوار پھری حلق پہ کئی باری
شکر پر خالق باری کا کیا ہر باری
اتفاقِ علماء اس میں ہے اے اہلِ عزا
پانچ شرطیں ہیں ذبیحے کے لیے پیشِ خدا
شرطِ اوّل ہے کہ حیوان نہ ہو بھوکا پیاسا
احتیاطا بدمِ ذبح بھی دو آب و غذا
شرطِ ثانی ہے کہ ہو جمعہ تو تاخیر کرو
جمعہ کو وقتِ نماز اس پہ نہ تکبیر کرو
شرطِ سوم ہے کہ حیوان نہ ہو پیشِ حیواں
تا دمِ ذبح نہ حسرت سے ہو باہم نگراں
شرط چارم ہے کہ جلدی نہ کرو تا امکاں
ہو چھری تیز مگر ہاتھ ہو نرمی سے رواں
شرط ِ پنجم ہے کہ چھری بھی نہ دکھاؤ اس کو
ذبح کے پہلے قضا سے نہ ڈراؤ اس کو
ذبح ہونے کی یہ شرطیں ہیں مگر واویلا
اشرف خلق جو تھا سبطِ نبیﷺ نورِ خدا
آہوئے شیرِ خدا فدیۂ ربِ دو سرا
کھانا کیسا کہ نہ پانی اسے قاتل نے دیا
حلق تر کرتے ہیں قصاب بھی قربانی کا
قطرہ اُمت نے نہ سیدؑ کو دیا پانی کا
قتلِ حیوان سے بھی رہتے ہیں بشر جمعہ کو باز
آہ عاشور کو تھا جمعہ بھی اور وقتِ نماز
نام سے جس کے ہوا شرع کا خطبہ ممتاز
منبرِ دوشِ نبیﷺ پر پا کیے جس نے دراز
اس کے سینے پہ چڑھا شمر کلیجہ دیکھو
جاۓ آداب پہ یہ بدعتِ بے جا دیکھو
ذبحِ حیواں کا نہیں حکم ہے حیواں کے حضور
یاں نہ شبیرؑ تھے کچھ دور نہ زینبؑ تھی دور
آلِ حیدرؑ در خیمہ پہ کھڑی تھی مجبور
لٹتی تھی کہیں کبریٰؑ کہیں بانوئےؑ رنجور
شاہؑ ان کو، وہ سُوئے شاہِ امم دیکھتے تھے
ذبح ہوتے تھے حسینؑ اہلِ حرم دیکھتے تھے
مرزا دبیر
سلامت علی دبیر
No comments:
Post a Comment