کسی کی آنکھوں میں اشک آیا تو دل دُکھے گا
کسی کا بھی تُو نے دل دُکھایا تو دل دکھے گا
بُلا رہا ہے جسے تُو اتنی محبتوں سے
تِرے بُلاوے پہ وہ نہ آیا تو دل دکھے گا
تمہیں بتایا تھا وصل رُت میں جو راز ہم نے
کسی کو تم نے اگر بتایا تو دل دکھے گا
زمانہ دولت کے آشناؤں کا آشنا ہے
تمہارے دل میں بھی آ سمایا تو دل دکھے گا
نہیں دُکھے گا کسی کا دل بھی تمہاری خاطر
کسی کا تم نے جو دل دکھایا تو دل دکھے گا
بنا بھی سکتے ہو اور کیا کچھ بنا رہے ہو
اگر انوکھا نہ کچھ بنایا تو دل دکھے گا
عیاں ہے محنت ہماری ہاتھوں کے آبلوں سے
ہمارے پیڑوں پہ پھل نہ آیا تو دل دکھے گا
ہم آزمائش پہ خوب اُتریں گے پھر بھی عادل
ہمیں کہیں اس نے آزمایا تو دل دکھے گا
نوشیروان عادل
No comments:
Post a Comment