قبُول و رد میں نہ جہل و شعُور میں اٹکا
ہلالِ عید تو گویا کھجُور میں اٹکا
شراب پینے کی عادت سے باز آیا نہیں
وہ عمر بھر رہا کیف و سرُور میں اٹکا
وہ مولوی تھا بڑا کائیاں، اسی باعث
شعُور میں تو نہیں لا شعُور میں اٹکا
ملے گا شیخ مزا کیا تمہیں عبادت کا
تمہارا ذہن تو ہے وصلِ حُور میں اٹکا
اُڑاتے پھرتے ہیں مرغ و مٹن مِرے دُشمن
جو مستحق ہے وہ دالِ مسُور میں اٹکا
ہے دوپہر ابھی کیوں رات کا خیال کریں
اندھیرا ہے ابھی امواجِ نُور میں اٹکا
کھڑا تھا جام بکف شیخ ساحلِ کوثر
یہاں بھی ہائے شراب طہُور میں اٹکا
سکونِ قلب کی اس کو نہیں کوئی اُمید
مریضِ عشق ہے لندن کے ٹُور میں اٹکا
اسے ذرا بھی نہیں اپنی عاقبت کا خیال
دماغِ شیخ تو ہے فِسق و فجُور میں اٹکا
عاصم پیرزادہ
No comments:
Post a Comment