طویل تھے نہیں جتنے طویل ہوتے گئے
ہمارے چلنے سے رستے طویل ہوتے گئے
بہت ہی سہل لگا تھا تمہارا نام، مگر
تمہارے نام کے ہِجّے طویل ہوتے گئے
ہم ایسے لوگوں سے خُوشیاں کشید ہی نہ ہوئیں
ہم ایسے لوگوں پہ صدمے طویل ہوتے گئے
ہماری مُشکلیں بڑھتی گئیں اور اس کے ساتھ
ہماری ماؤں کے سجدے طویل ہوتے گئے
مبین دھاریجو
No comments:
Post a Comment