جس طرح کوئی کہے
اور ترے شہر سے جب رختِ سفر باندھ لیا
در و دیوار پہ حسرت کی نظر کیا کرتے
چاند کجلائی ہوئی شام کی دہلیز پہ تھا
اس گھڑی بھی ترے مجبورِ سفر کیا کرتے
دل ٹھہر جانے کو کہتا تھا مگر کیا کرتے
“ہم نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا”
جس طرح یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
کچھ اسی طرح کی کیفیتِ جاں آج بھی ہے
جس طرح کوئی قیامت ہو گزر جانے کو
جس طرح کوئی کہے پھر سے پلٹ آنے کو
احمد فراز
No comments:
Post a Comment