Friday, 27 November 2020

چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز

چلے گی نہ اے دل کوئی گھات ہرگز

نہیں ان سے ہو گی ملاقات ہرگز

بہت کوشش ضبط کی ہم نے لیکن

ٹھہرتے نہیں دل میں جذبات ہرگز

تُو بقراطِ دوراں ہے ناصح مگر ہم

سُنیں گے نہ تیرے مقالات ہرگز

جو جاں بازیوں کی چلے چال اس کو

بساطِ وفا پر نہ ہو مات ہرگز

امیدوں کے جگنو چمکتے ہیں لیکن

نہ ٹھہریں گے دم بھر یہ لمعات ہرگز

ہے کیا زیست کیا حاصل زندگی ہے

نہیں ہوتے حل پہ سوالات ہرگز

وہ چمکا کریں لاکھ پر ہو سکیں گے

مقابل نہ سُورج کے ذرات ہرگز

ہمارا ہے حقِ وفا دیں نہ دیں، پر

نہ مانگیں گے ہم ان سے خیرات ہرگز

تن آسانو! اُلفت سے باز آؤ، تم سے

اُٹھیں گے نہ غم کے صعوبات ہرگز

نکیرین آئے ہیں کچھ کہہ کے ٹالو

ٹلیں گے نہ ورنہ یہ حضرات ہرگز

غلط بات ہے پر یہ لگتا ہے جیسے

کٹے گی نہ اب ہجر کی رات ہرگز

نہ گھبراؤ تم عارضی ہیں یہ آنسو

مسلسل نہ ہو گی یہ برسات ہرگز

زیاں بھی اٹھائے ہیں پر ہم نے یارو

نہیں دل میں رکھی کوئی بات ہرگز

وہ گُزری ہے ہم پر جو مجنوں پہ گزری

بدلتے نہیں غم کے حالات ہرگز

دلِ کیف ہے اک ربابِ شکستہ

اُٹھیں گے نہ اب اس سے نغمات ہرگز


سرسوتی سرن کیف

No comments:

Post a Comment