Friday 27 November 2020

اس اطلسی قبا کے ہی تسمے کا درد ہے

 اس اطلسی قبا کے ہی تسمے کا درد ہے

وہ حسنِ بے بہا تھا، مرا رنگ 'زرد' ہے

گاچی پڑی اداس ہے تختی کے آس پاس

پوچھے، سکھائے کون کہ ماحول سرد ہے

دریا میں بار بار، ڈبوتا ہوں اپنا منہ

تجھ روشنی کے لوبھ میں چہرے پہ گرد ہے

الٹا بنا رہا ہوں میں کاغذ پہ عکس کو

سیدھا وہی دکھائے گا جو اصل مرد ہے

ہم ہیں خلا کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے سخی

اے دوست! تُو فقط ابھی صحرا نورد ہے

ہر لفظ کا مقام ہے راشد غزل کے گھر

ہر شعر خاندان کا با رعب فرد ہے


راشد امام

No comments:

Post a Comment