Saturday 28 November 2020

روح کے گھاؤ میں دُکھن اترے تو

 روح کے گھاؤ میں دُکھن اترے تو

سانسوں کے تانے بانے ٹوٹنے لگتے ہیں

دل سے نکلی دلخراش چیخ

تنہائی کے گھنے جنگلوں میں بھٹکتی رہتی ہے

کوئی کاندھا نصیب نہ ہونے پر

پلٹ کر سماعتوں پر گہرا وار کرتی

اور شکستگی کے لمحوں میں ڈوب کر

بے صدا ہو جاتی ہے

لیکن درد معدوم ہوتا ہے

نہ روح آزاد



غزل قاضی

No comments:

Post a Comment