ہم زمیں زاد
ہمارے پیروں کے چھالے پھوٹیں
تو ان کے نم سے
غبار رستوں کا بیٹھتا ہے
ہمارے خوابوں کا خون پی کر یہ سبز رنگی رُتیں جواں ہیں
ہمارے سر کاٹ کر اساسِ فلک میں جب تک دھرے نہ جائیں
کھڑا نہ رہ پائے ایک پل بھی
ہماری پوروں نے قطرہ قطرہ لہو دیا ہے
تو ورقِ جاں سرخ گُوں ہوا ہے
ہمارے اشکوں نے ہر لبِ دشت کو چھُوا ہے
تو تر ہوا ہے
وگرنہ اے شاہکارِ فطرت
تمہارے اندر رکھا ہی کیا ہے
ظہیر مشتاق
No comments:
Post a Comment