Sunday 29 November 2020

ہمارے پیروں کے چھالے پھوٹیں

 ہم زمیں زاد


ہمارے پیروں کے چھالے پھوٹیں

تو ان کے نم سے

غبار رستوں کا بیٹھتا ہے

ہمارے خوابوں کا خون پی کر یہ سبز رنگی رُتیں جواں ہیں

ہمارے سر کاٹ کر اساسِ فلک میں جب تک دھرے نہ جائیں

کھڑا نہ رہ پائے ایک پل بھی

ہماری پوروں نے قطرہ قطرہ لہو دیا ہے

تو ورقِ جاں سرخ گُوں ہوا ہے

ہمارے اشکوں نے ہر لبِ دشت کو چھُوا ہے

تو تر ہوا ہے

وگرنہ اے شاہکارِ فطرت

تمہارے اندر رکھا ہی کیا ہے


ظہیر مشتاق

No comments:

Post a Comment