سورج کی تمازت سے زمیں جلنے لگی ہے
لیکن سرِ کہسار🏔 وہی برف جمی ہے
دیکھے کوئی جھڑتے ہوئے پتوں کا نظارہ
جیسے کسی دیوار پہ تصویر بنی ہے
پت جھڑ ہے تو پھر گرنے سے اب کون بچے گا
آندھی کبھی دیوار اٹھانے سے رکی ہے
کیا گرد اڑائی ہے اداسی نے ہوا میں
سورج کی چمک بھی مجھے دھندلی سی لگی ہے
گو خشک ہیں صحرا کی طرح جسم ہمارے
آنکھوں کے گڑھوں میں تو ابھی پانی وہی ہے
کیا میں بھی کوئی آخری امید ہوں خاور
کیوں سارے زمانے کی نظر مجھ پہ لگی ہے
خاقان خاور
No comments:
Post a Comment