Saturday 28 November 2020

قہقہہ ٹوٹا سانس کی ہلتی ٹہنی سے

 یوں ہے کہ

کبھی قہقہہ ٹوٹا سانس کی ہلتی ٹہنی سے

کبھی آنکھیں چُورا چُورا ہو کر بہہ نکلیں

کبھی لفظ ہنسی کی گردباد میں اڑتے رہے

کبھی سِسکاری نے آنچ بھری تو پگھل گئے

میں چھلک گیا تو لفظ بھی سارے چھلک گئے

پھر ایک روز

میں ہنس نہ سکا تو مصرع ہوا

ہنس مکھ لفظوں کی بزم ہوئی

اور ایک روز

جب رو نہ سکا، یا ضبط کیا

تو نظم ہوئی


وحید احمد

No comments:

Post a Comment