کوئی سنتا ہی نہیں، کس کو سنانے لگ جائیں
درد اگر اٹھے تو کیا شور مچانے لگ جائیں
بھید ایسا کہ گِرہ جس کی طلب کرتی ہے عمر
رمز ایسا کہ سمجھنے میں زمانے لگ جائیں
آ گیا وہ تو دل و جان بچھے ہیں ہر سُو
اور نہیں آئے تو کیا خاک اڑانے لگ جائیں
تیری آنکھوں کی قسم ہم کو یہ ممکن ہی نہیں
تُو نہ ہو اور یہ منظر بھی سہانے لگ جائیں
وحشتیں اتنی بڑھا دے کہ گھروندے ڈھا دیں
سبز شاخوں سے پرندوں کو اڑانے لگ جائیں
ایسا دارُو ہو رہِ عشق سے باز آئیں قدم
ایسا چارہ ہو کہ بس ہوش ٹھکانے لگ جائیں
اکرم نقاش
No comments:
Post a Comment