اچھے لوگوں سے کنارا نہیں اچھا ہوتا
اچھا ہوتا نہیں یارا، نہیں اچھا ہوتا
یار جینا ہے تو پھر شان سے جینا سیکھو
زیست میں صرف گزارا نہیں اچھا ہوتا
یہ حقیقت ہے محبت کے خسارے کے سوا
اور کوئی بھی خسارا نہیں اچھا ہوتا
میں نے سو بار اکیلے میں بتایا ہے تجھے
بھری محفل میں اشارا نہیں اچھا ہوتا
اس کی محنت پہ بھی پھر جاتا ہے پانی لوگو
جس کی قسمت کا ستارا نہیں اچھا ہوتا
پھر تو ماضی سے کنارا ہی بھلا ہے صاحب
اس سے گر حال تمہارا نہیں اچھا ہوتا
توڑ کر تم سے تعلق جو کسی کا ہو جائے
رابطہ اس سے دوبارا نہیں اچھا ہوتا
خوبیاں، خامیاں ہر شخص میں ہوتی ہیں ضیا
آدمی، سارے کا سارا نہیں اچھا ہوتا
ضیاء اللہ قریشی
No comments:
Post a Comment