Saturday, 28 November 2020

گھاٹے میں جانے والی دکاں سے الگ ہوا

 گھاٹے میں جانے والی دُکاں سے الگ ہوا

میں ایک روز تیرے جہاں سے الگ ہوا

بس یاد رہ گیا تھا مجھے عشق، عشق، عشق

پھر یہ بھی لفظ میری زباں سے الگ ہوا

مت پوچھ کون کون ہے اس کا ہدف یہاں

یہ دیکھ تیر🠄 کیسے کماں سے الگ ہوا

آنکھوں سے اشک اشک ٹپکتا ہے رات دن

کب ایک شخص میری فغاں سے الگ ہوا

دنیا و آخرت سے مجھے مت ڈرائیے

میں کاروبارِ سود و زیاں سے الگ ہوا

دل کون سے محاذ پہ ہارا ہے اپنی جان

یہ آخری سپاہی کہاں سے الگ ہوا


قمر رضا شہزاد

No comments:

Post a Comment