Monday 30 November 2020

کوئے جاناں میں نہیں کوئی گزر کی صورت

 کوئے جاناں میں نہیں کوئی گزر کی صورت

دل اڑا پھرتا ہے ٹوٹے ہوئے پر کی صورت

ہم تو منزل کے طلبگار تھے, لیکن منزل

آگے بڑھتی ہی گئی راہگزر کی صورت

وہ رہیں سامنے میرے تو تسلی, ورنہ

دل بھی کمبخت بھٹکتا ہے نظر کی صورت

روح افسردہ پریشان خیالات میں گم

ایسی پہلے کبھی دیکھی تھی بشر کی صورت

میری قسمت میں محبت نے یہی لکھا ہے

درد بھی دل میں رہے زخم جگر کی صورت

بیٹھ جائیں کسی گوشے میں سمٹ کر اے دوست

کون گردش میں رہے شمس و قمر کی صورت

وہ گئے گھر سے تو پھر ہم نے بھی گھر کو چھوڑا

ہم سے دیکھی گئی دیوار نہ در کی صورت

چند آنسو ہی مرے دل پہ فلک گر جائیں

آتشِ غم سے سلگتا ہے شرر کی صورت


فلک دہلوی

No comments:

Post a Comment