ساتویں دن ہی اذیت سے معافی رکھے
میری ہفتے میں کسی روز تو چھٹی رکھے
انگلیوں پر جو گنے ہجر میں کاٹے ہوئے پل
سبھی کے مشورے چھوڑے وہ ریاضی رکھے
اُس سے اِس واسطے کہتا ہوں کہ مر جاؤں گا
کبھی شاید مرے ہونٹوں پہ وہ انگلی رکھے
کیسے اوباش محلے میں بنائے گا مکان
بیٹیوں والا ہے کس سمت کو کھڑکی رکھے
اب ترے جھوٹ پہ تشکیک ہوا کرتی ہے
اب تجھے یار ضروری ہے کہ داڑھی رکھے
احمد آشنا
No comments:
Post a Comment