الجھے تو سب نشیب و فرازِ حیات میں
ہم تھے کہ ان کی زلفوں کے خم دیکھتے رہے
جب گھر جلا تھا میرا وہ منظر عجیب تھا
دیکھا نہیں جو تم نے وہ ہم دیکھتے رہے
وہ صاحب قلم نہ وہ اب صاحبان سیف
کیا ہو گئے ہیں سیف و قلم دیکھتے رہے
ہم تشنہ کام جامِ تہی لے کے ہاتھ میں
ساقی کا مے کدہ میں بھرم دیکھتے رہے
پہنچے صنم کدے میں تو حیرت نہ کم ہوئی
کتنے بدل گئے ہیں صنم دیکھتے رہے
بس دیکھتے ہی دیکھتے نوشاد کیا کہیں
سورج غروب ہو گیا ہم دیکھتے رہے
نوشاد علی
No comments:
Post a Comment