چاندنی رات ٹھہر جائے تو پھر نیند کہاں
چاند آنکھوں میں اتر آئے تو پھر نیند کہاں
قید شہزادی ہے جس میں وہی شیشے کا محل
میرے اشکوں میں نظر آئے تو پھر نیند کہاں
رات آئے تو وہی پریوں کے قصے لائے
نیند کا وقت گزر جائے تو پھر نیند کہاں
وہی آنگن وہی دالان کی محراب کے پھول
جب خیالوں وہ گھر آئے تو پھر نیند کہاں
دل ہی ایسا تھا کہ ہر درد چھپا لیتا تھا
دل کا شیرازہ بکھر جائے تو پھر نیند کہاں
تھا عجب رنج کے ہم نے بھی بھلایا اس کو
یاد وہ بارِ دگر آئے تو پھر نیند کہاں
جس ستارے پہ جمی رہتی تھیں آنکھیں شب بھر
وہ ستارہ مرے گھر آئے تو پھر نیند کہاں
شمع ظفر مہدی
No comments:
Post a Comment