Sunday 29 November 2020

چاندنی رات ٹہر جائے تو پھر نیند کہاں

 چاندنی رات ٹھہر جائے تو پھر نیند کہاں

چاند آنکھوں میں اتر آئے تو پھر نیند کہاں

قید شہزادی ہے جس میں وہی شیشے کا محل

میرے اشکوں میں نظر آئے تو پھر نیند کہاں

رات آئے تو وہی پریوں کے قصے لائے

نیند کا وقت گزر جائے تو پھر نیند کہاں

وہی آنگن وہی دالان کی محراب کے پھول

جب خیالوں وہ گھر آئے تو پھر نیند کہاں

دل ہی ایسا تھا کہ ہر درد چھپا لیتا تھا

دل کا شیرازہ بکھر جائے تو پھر نیند کہاں

تھا عجب رنج کے ہم نے بھی بھلایا اس کو

یاد وہ بارِ دگر آئے تو پھر نیند کہاں

جس ستارے پہ جمی رہتی تھیں آنکھیں شب بھر

وہ ستارہ مرے گھر آئے تو پھر نیند کہاں


شمع ظفر مہدی

No comments:

Post a Comment