آؤ پھر ذکر فراق یار میں کھو جائیں ہم
تم ذرا سا گنگناؤ اور بس سو جائیں ہم
چاند نکلے آسماں پہ چاندنی بدمست ہو
بن پیۓ ہی مست خمرِ یار سے ہو جائیں ہم
چاندنی میں کھوئے رستے جس طرح الجھے سوال
در، مکاں اور کھڑکیوں کے خواب نہ بو جائیں ہم
نگہتِ جاناں کی اڑتی اڑتی خوشبو ہے کہیں
ہوش میں رہتے ہوئے بے ہوش نہ ہو جائیں ہم
اب تو ملنے کی وہ پہلی چاہ بھی برباد ہے
تم نے جانے کا کہا، ہم نے کہا لو جائیں ہم
آؤ قصہ فرقتِ جاناں کا انور پھر سنیں
سنتے سنتے آنسوؤں سے خواب نہ دھو جائیں ہم
انور زاہدی
No comments:
Post a Comment