Saturday 28 November 2020

آؤ پھر ذکر فراق یار میں کھو جائیں ہم

 آؤ پھر ذکر فراق یار میں کھو جائیں ہم

تم ذرا سا گنگناؤ اور بس سو جائیں ہم

چاند نکلے آسماں پہ چاندنی بدمست ہو

بن پیۓ ہی مست خمرِ یار سے ہو جائیں ہم

چاندنی میں کھوئے رستے جس طرح الجھے سوال

در، مکاں اور کھڑکیوں کے خواب نہ بو جائیں ہم

نگہتِ جاناں کی اڑتی اڑتی خوشبو ہے کہیں

ہوش میں رہتے ہوئے بے ہوش نہ ہو جائیں ہم

اب تو ملنے کی وہ پہلی چاہ بھی برباد ہے

تم نے جانے کا کہا، ہم نے کہا لو جائیں ہم

آؤ قصہ فرقتِ جاناں کا انور پھر سنیں

سنتے سنتے آنسوؤں سے خواب نہ دھو جائیں ہم


انور زاہدی

No comments:

Post a Comment