Friday, 27 November 2020

آنکھ یہ دونوں کی رنگیلی ہو جاتی ہے

 دیکھ کے شیشہ جب نوکیلی ہو جاتی ہے

آنکھ یہ دونوں کی رنگیلی ہو جاتی ہے

ہم اشکوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں اور

تصویروں کی رنگت پیلی ہو جاتی ہے

اکثر سارے موسم مجھ کو بھا جاتے ہیں

اکثر سوچ کے حالت گیلی ہو جاتی ہے

میں بھی اس کی آنکھ سے آنکھ ملا لیتا ہوں

وہ بھی منظر دیکھ رسیلی ہو جاتی ہے

باتوں باتوں میں ہی جھگڑا ہو جاتا ہے

یوں ہم دونوں میں تبدیلی ہو جاتی ہے

اس کو چھو کر مجھ کو آج ہوا محسوس

اس کو چھو کر رنگت نیلی ہو جاتی ہے

جیسے مجھ کو یار مسلسل دیکھ رہی ہے

ایسے بھی تو آنکھ نشیلی ہو جاتی ہے

ہم بھی ایسے سادہ دل ہیں جانِ حیات

وہ بھی پتھر سے برفیلی ہو جاتی ہے

ایسے دیواروں میں عکس بناتا ہوں

منظر دیکھ کے وہ چمکیلی ہو جاتی ہے


ندیم ملک

No comments:

Post a Comment