دیکھ کے شیشہ جب نوکیلی ہو جاتی ہے
آنکھ یہ دونوں کی رنگیلی ہو جاتی ہے
ہم اشکوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں اور
تصویروں کی رنگت پیلی ہو جاتی ہے
اکثر سارے موسم مجھ کو بھا جاتے ہیں
اکثر سوچ کے حالت گیلی ہو جاتی ہے
میں بھی اس کی آنکھ سے آنکھ ملا لیتا ہوں
وہ بھی منظر دیکھ رسیلی ہو جاتی ہے
باتوں باتوں میں ہی جھگڑا ہو جاتا ہے
یوں ہم دونوں میں تبدیلی ہو جاتی ہے
اس کو چھو کر مجھ کو آج ہوا محسوس
اس کو چھو کر رنگت نیلی ہو جاتی ہے
جیسے مجھ کو یار مسلسل دیکھ رہی ہے
ایسے بھی تو آنکھ نشیلی ہو جاتی ہے
ہم بھی ایسے سادہ دل ہیں جانِ حیات
وہ بھی پتھر سے برفیلی ہو جاتی ہے
ایسے دیواروں میں عکس بناتا ہوں
منظر دیکھ کے وہ چمکیلی ہو جاتی ہے
ندیم ملک
No comments:
Post a Comment