Saturday 28 November 2020

دشت طلب میں کب سے اکیلا کھڑا ہوں میں

دشتِ طلب میں کب سے اکیلا کھڑا ہوں میں

 جس کا نہیں جواب کوئی وہ صدا ہوں میں

کس کی تلاش ہے؟ مجھے اپنے وجود میں

وہ کون کھو گیا ہے جسے ڈھونڈھتا ہوں میں

یہ میں نے کب کہا تھا کہ؛ ٹھہرو مرے لیے

دیکھا تو ہوتا مُڑ کے کہاں رہ گیا ہوں میں

ہے کس کا انتظار تجھے راہِ رفتگاں؟

تیری حدوں سے دور بہت جا چکا ہوں میں

مُدت کے بعد لوٹ کے گھر آ گیا تو ہوں

اب سوچنے لگا ہوں کوئی دوسرا ہوں میں


اقبال انجم

No comments:

Post a Comment