انتظار کی حد تک انتظار کرنا تھا
اعتبار کی حد تک اعتبار کرنا تھا
حالِ دل تو کہنا تھا مُختصر مگر قاصد
اِختصار کی حد تک اِختصار کرنا تھا
خواب ہو کہ بیداری آہ و نالہ و زاری
اِختیار کی حد تک اِختیار کرنا تھا
اس نے حسبِ آسائش کی عدُو کو فہمائش
خاکسار کی حد تک خاکسار کرنا تھا
نعش بھی مِری اُس نے قبر میں نہ رہنے دی
بے دیار کی حد تک بے دیار کرنا تھا
یاس ہو کہ سرمستی چاک جامۂ ہستی
تار تار کی حد تک تار تار کرنا تھا
اے تمیز! یاروں پر ناتواں سہاروں پر
اِنحصار کی حد تک اِنحصار کرنا تھا
تمیز دہلوی
تمیزالدین
No comments:
Post a Comment