Sunday 29 November 2020

گریہ بے تاثیر و فریاد دل مضطرب خراب

 گریہ بے تاثیر و فریادِ دلِ مضطرب خراب

کارِ عشق و عاشقی ناقص تمام اکثر خراب

اک ہمارا نام جو پہنچے نہ تیری بزم میں

اک ہماری خاک ہے جو پھرتی ہے در در خراب

میرے دل میں ایک دم آتے نہیں مثلِ مراد

ہو گئے اغیار کی آنکھوں میں تم رہ کر خراب

تم کسی وعدہ سے پھر جاؤ کہ ہو جاؤں تمام

ہو اگر پھرنے میں میرے حلق پر خنجر خراب

یوں خراباتِ مغاں بھی ہے خراب روزگار

لیکن اس سے بھی کچھ تیرا دل انور خراب


انور دہلوی

No comments:

Post a Comment