Friday 27 November 2020

ایک ایک چہرے کے بے شمار چہرے ہیں

🕮 فیس بک👥


عہدِ نارسائی میں

کون کس کو پہچانے

کون دشمنِ جاں ہو

کون آشنا ٹھہرے

اس کتاب چہرے پر

ڈھونڈنے جو نکلیں تو

کون بے وفا نکلے

کون پارسا نکلے


یارِ مہرباں کیسا

کون ہے کہاں کیسا

کون اور کہاں کے بیچ

کس کی بات سچی ہے

درمیانِ روز و شب

کس کی فکر اچھی ہے

کس کے خواب پختہ ہیں

کس کی نیند کچی ہے


اس کتاب چہرے پر

دوستی کے سب رشتے

گام گام روٹھے ہیں

آئینوں کی بستی میں

عکس ٹوٹے ٹوٹے ہیں

مسکراہٹوں کے ساتھ

سارے لہجے جھوٹے ہیں

کوئی قہقہوں کے بیچ

آنسوؤں کو سہتا ہے

کوئی آنسوؤں کے بیچ

دم بخود سا رہتا ہے


باہمی ستائش کا

ایک سلسلہ سا ہے

ایک دوسرے کی بس

ہاں میں ہاں ملانے کا

بے مزہ، مزہ سا ہے

کچھ سپاٹ چہرے ہیں

جو فقط تماشہ اک

دیکھنے کو آتے ہیں

فیس بک کے سرکس میں

پتیاں اڑاتے ہیں

تالیاں بجاتے ہیں


کچھ دلوں میں حسرت ہے

اور محبتیں بھی ہیں

کچھ نگاہوں میں غصہ

اور چاہتیں بھی ہیں

ہلکی پھلکی ناراضی

ایک دوسرے سے یوں

مستقل ہی رہتی ہے

کوئی بحث کرتا ہے

کوئی نثر لکھتا ہے

کوئی شعر کہتا کے

کوئی نظم لکھتا ہے

کوئی بے سبب یونہی

کچھ نہیں ملے تو پھر

حالِ دل سناتا ہے

کوئی اپنے دفتر میں

یا پھر اپنے کمرے میں

بے سبب یونہی بیٹھا

انگلیاں تھکاتا ہے


گفتگو سیاست پر

قہقہہ قیادت پر

آنسوؤں بھری آنکھیں

زخم زخم ہجرت پر

لخت لخت سی ہوتی

بات کچھ ریاست پر

مدحت و محبت بھی

طنز اور تبرا بھی

قربتوں کے بیچوں بیچ

فاصلوں کا صحرا بھی

آدمی کے چہرے پر

مصلحت کا پردہ بھی


اس کتاب چہرے پر

بے شمار چہرے ہیں

مسئلہ بس اتنا ہے

بے شمار چہروں میں

ایک ایک چہرے کے

بے شمار چہرے ہیں


کامران نفیس

No comments:

Post a Comment