ترے خیال کے اب سلسلے نہیں ہوتے
ہماری آنکھوں سے اب رتجگے نہیں ہوتے
کسی کی خامشی تاعمر ساتھ رہتی ہے
کسی کے بند کبھی قہقہے نہیں ہوتے
بدن کی غار میں سناٹا چیختا ہے بہت
کوئی بھی جوش کوئی ولولے نہیں ہوتے
محبتیں بھی کہاں اب طواف کرتی ہیں؟
کیوں ان کے پیروں میں اب آبلے نہیں ہوتے
اگر ہم ان کے اصولوں پہ زندگی رکھتے
رہِ حیات میں کچھ مسئلے نہیں ہوتے
کبھی تو منزلیں خود راستے بناتی ہیں
کبھی پہنچ کے کوئی راستے نہیں ہوتے
جنونِ عشق میں حد سے گزر گئی ہو صدف
یوں گردِ چشم سیاہ دائرے نہیں ہوتے
صبیحہ صدف
No comments:
Post a Comment