Sunday 29 November 2020

ترے خیال کے اب سلسلے نہیں ہوتے

 ترے خیال کے اب سلسلے نہیں ہوتے

ہماری آنکھوں سے اب رتجگے نہیں ہوتے

کسی کی خامشی تاعمر ساتھ رہتی ہے

کسی کے بند کبھی قہقہے نہیں ہوتے

بدن کی غار میں سناٹا چیختا ہے بہت

کوئی بھی جوش کوئی ولولے نہیں ہوتے

محبتیں بھی کہاں اب طواف کرتی ہیں؟

کیوں ان کے پیروں میں اب آبلے نہیں ہوتے

اگر ہم ان کے اصولوں پہ زندگی رکھتے

رہِ حیات میں کچھ مسئلے نہیں ہوتے

کبھی تو منزلیں خود راستے بناتی ہیں

کبھی پہنچ کے کوئی راستے نہیں ہوتے

جنونِ عشق میں حد سے گزر گئی ہو صدف

یوں گردِ چشم سیاہ دائرے نہیں ہوتے


صبیحہ صدف

No comments:

Post a Comment