Saturday 28 November 2020

پیرہن سے جو چھلکتا ہے سراپا میرا

 پیرہن سے جو چھلکتا ہے سراپا میرا

پوچھوں آئینے سے یہ روپ ہے کیسا میرا

کاش باطن سے مرا رنگ ابھرتا نہ کوئی

میری تصویر نے رکھا نہیں پردا میرا

منتظر ایک فراموش ہوئے لمحے کی ہوں

زندگی بھر پہ محیط ایک وہ لمحہ میرا

اسی پہچان پہ نازاں رہوں میں شام و سحر

میرے آنچل میں سمٹ آیا ہے ہونا میرا

تُو فقط پھول کے کھلنے ہی پہ خوش اتنا ہے

تُو نے دیکھا ہی نہیں وصل میں کھلنا میرا

میری سانسوں میں اسی واسطے ہلچل ہے بہت

ابھی زندہ ہے کوئی چاہنے والا میرا

بے سبب شازیہ اکبر نہیں آنکھوں میں چمک

ابھی افلاک پہ ہے کوئی ستارا میرا


شازیہ اکبر

No comments:

Post a Comment