پیرہن سے جو چھلکتا ہے سراپا میرا
پوچھوں آئینے سے یہ روپ ہے کیسا میرا
کاش باطن سے مرا رنگ ابھرتا نہ کوئی
میری تصویر نے رکھا نہیں پردا میرا
منتظر ایک فراموش ہوئے لمحے کی ہوں
زندگی بھر پہ محیط ایک وہ لمحہ میرا
اسی پہچان پہ نازاں رہوں میں شام و سحر
میرے آنچل میں سمٹ آیا ہے ہونا میرا
تُو فقط پھول کے کھلنے ہی پہ خوش اتنا ہے
تُو نے دیکھا ہی نہیں وصل میں کھلنا میرا
میری سانسوں میں اسی واسطے ہلچل ہے بہت
ابھی زندہ ہے کوئی چاہنے والا میرا
بے سبب شازیہ اکبر نہیں آنکھوں میں چمک
ابھی افلاک پہ ہے کوئی ستارا میرا
شازیہ اکبر
No comments:
Post a Comment