سبز پتوں کی ہزیمت میں اڑے سوکھتے ہیں
نشہ اترا ہے تو حیرت میں گڑے سوکھتے ہیں
کشتئ نوح سے اترے تو بہت بانکے تھے
یہ جو چپ چاپ ترے در پہ کھڑے سوکھتے ہیں
کوزہ گر جب سے جہاں زاد کا دیوانہ ہوا
ہم سے کتنے ہی تغاری میں پڑے سوکھتے ہیں
ہائے وہ آنکھیں کبھی رونقِ مہ پارہ تھیں
اب تو مہتاب میں دو دیدے جٙڑے سوکھتے ہیں
اب کوئی زہر، نہ سقراط، نہ حق بات کوئی
نقرئی رتھ میں جتے اسپ کھڑے سوکھتے ہیں
جو سکندر کی حکایت نہ سمجھ پائے وہ اب
چشمۂ آبِ بقا پر ہی پڑے سوکھتے ہیں
احسان عباس
No comments:
Post a Comment