Monday 30 November 2020

سبز پتوں کی ہزیمت میں اڑے سوکھتے ہیں

 سبز پتوں کی ہزیمت میں اڑے سوکھتے ہیں

نشہ اترا ہے تو حیرت میں گڑے سوکھتے ہیں

کشتئ نوح سے اترے تو بہت بانکے تھے

یہ جو چپ چاپ ترے در پہ کھڑے سوکھتے ہیں

کوزہ گر جب سے جہاں زاد کا دیوانہ ہوا

ہم سے کتنے ہی تغاری میں پڑے سوکھتے ہیں

ہائے وہ آنکھیں کبھی رونقِ مہ پارہ تھیں

اب تو مہتاب میں دو دیدے جٙڑے سوکھتے ہیں

اب کوئی زہر، نہ سقراط، نہ حق بات کوئی

نقرئی رتھ میں جتے اسپ کھڑے سوکھتے ہیں

جو سکندر کی حکایت نہ سمجھ پائے وہ اب

چشمۂ آبِ بقا پر ہی پڑے سوکھتے ہیں


احسان عباس

No comments:

Post a Comment