بخیہ گر چاکِ جگر روز سیۓ جاتے ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں وہ ٹانکے جو دئیے جاتے ہیں
آنکھ کی راہ نکلنے کو مچل پڑتے ہیں
خون کے گھونٹ جو ہر روز پئے جاتے ہیں
ہم نے سب چھوڑ دیا سازِ تمنا، لیکن
داغِ حسرت ہے کہ دنیا سے لئے جاتے ہیں
وجہ تحریکِ دو عالم نہیں معلوم ہوئی
کام کچھ سوچ کے آخر کو کئے جاتے ہیں
درد کرتے ہیں بہت چھیڑ نہ اے تارِ نفس
آبلے دل کے ذرا بھی جو چھئے جاتے ہیں
گورسرن آزاد
No comments:
Post a Comment