Saturday 28 November 2020

وہ مہربان ہے لیکن وہ میں نے چاہی نہیں

 وہ مہربان ہے، لیکن وہ میں نے چاہی نہیں

مرے وجود میں خواہش کی اب فضا ہی نہیں

یہ میرے شعر ہیں، کاغذ پہ کوئی قصہ نہیں

یہ روشنی ہے مری جان، یہ سیاہی نہیں

میں چاند ہاتھ میں لے کر تلاش کرتا ہوں

کوئی ستارہ گلی میں مجھے ملا ہی نہیں

ہر ایک رنگ میں یہ کامیاب رہتا ہے

غلط نہ جان اسے، عشق میں تباہی نہیں

پری رخوں کو تصور میں تو نے رکھا ہے

ہوس ہے یہ تری، یہ تیری صبح گاہی نہیں

میں اپنی بات تسلی سے کر نہیں سکتا

اگرچہ میری حکومت ہے، بادشاہی نہیں

کھلی فضاؤں میں، میں سانس لینا چاہتا ہوں

مری حیات ہے بھرپور، خانقاہی نہیں


سعید اشعر

No comments:

Post a Comment