Sunday, 29 November 2020

گھروں کے یہ دکھ لے جاتے ہیں ہم بےچاروں کو

 گھروں کے یہ دکھ لے جاتے ہیں ہم بیچاروں کو

دیمک لکڑی کھا جاتی ہے، نم دیواروں کو

جہاں گرانی دیکھ کے مفلس خالی لوٹ آئیں

بھاڑ میں جائیں، آگ لگے ایسے بازاروں کو

دیکھیں اس کے بعد فلک کیسے اتراتا ہے؟

کوئی زمیں پر لا کے رکھ دے چاند ستاروں کو

خزاں نے پھول کھلا رکھے ہیں یہاں اداسی کے

اپنے گھر سے کیا نسبت ہے بھلا بہاروں کو


احمد امتیاز

No comments:

Post a Comment