Sunday, 29 November 2020

کسی کو پھر اسے پانے کی ضد ہے

 کسی کو پھر اسے پانے کی ضد ہے

ہمارے درمیاں آنے کی ضد ہے

مری چاہت ہے اس کو روک لینا

مگر وہ ہے کہ بس جانے کی ضد ہے

دیارِ شام سے آگے نکل کر

محبت کے عزا خانے کی ضد ہے

شعورِ غم وہاں پہنچا، کہ اب تو

خوشی کو مرثیہ خانے کی ضد ہے

کسی کی پیاس زندہ جاوِداں ہے

کسی کو پھر سے مر جانے کی ضد ہے

فراتِ جسم سے خیمے ہٹا کر

امیرِ شام کے آنے کی ضد ہے


علمدار عدم

No comments:

Post a Comment