Sunday, 29 November 2020

جاں بھی پر سوز ہو انجام تمنا کیا ہے

 جاں بھی پر سوز ہو، انجام تمنا کیا ہے

کوئی بتلائے کہ جینے کا بہانا کیا ہے؟

میری آنکھوں میں نمی بھی ہو تو واللہ کیا ہے

کوئی بھی جس کو نہ دیکھے وہ تماشا کیا ہے

وہ نہ چاہیں تو مزہ چاہ میں پھر خاک ملے

ہم اگر چاہیں بھی بالفرض تو ہوتا کیا ہے

دل سلگتا ہے، سلگتا رہے، جلتا ہے جلے

ایسی باتوں سے بھلا عشق میں بنتا کیا ہے

ہم سے منسوب ہیں امید و تمنا و خیال

کوئی دیکھے تو ذرا آپ کا نقشا کیا ہے

بے خبر کتنے تھے مسعود رموزِ غم سے

میں جو رویا تو کہا درد سے روتا کیا ہے


مسعود حسین

No comments:

Post a Comment