بارشوں میں خستہ جاں گرنے لگے
گرنے والے تھے مکاں گرنے لگے
ٹوٹتے رہتے ہیں تارے رات بھر
آسماں کے رازداں گرنے لگے
اک ذرا سا کیا ہوا نے چھو لیا
چھلنی چھلنی سائباں گرنے لگے
اس نگر میں راستے شیشے کے ہیں
ہر کوئی پھسلے وہاں گرنے لگے
ہو گئے اندھے چمک کو دیکھ کر
کیسے کیسے مہرباں گرنے لگے
عظمتوں کا کھوکھلا پن کُھل گیا
پستیوں میں آسماں گرنے لگے
اپنے مطلب کو اپاہج ہر کوئی
فائدہ دیکھا جہاں، گرنے لگے
آ گیا خاور مرمت کا خیال
جب مکینوں پر مکاں گرنے لگے
خاقان خاور
No comments:
Post a Comment