Saturday, 28 November 2020

بارشوں میں خستہ جاں گرنے لگے

 بارشوں میں خستہ جاں گرنے لگے

گرنے والے تھے مکاں گرنے لگے

ٹوٹتے رہتے ہیں تارے رات بھر

آسماں کے رازداں گرنے لگے

اک ذرا سا کیا ہوا نے چھو لیا

چھلنی چھلنی سائباں گرنے لگے

اس نگر میں راستے شیشے کے ہیں

ہر کوئی پھسلے وہاں گرنے لگے

ہو گئے اندھے چمک کو دیکھ کر

کیسے کیسے مہرباں گرنے لگے

عظمتوں کا کھوکھلا پن کُھل گیا

پستیوں میں آسماں گرنے لگے

اپنے مطلب کو اپاہج ہر کوئی

فائدہ دیکھا جہاں، گرنے لگے

آ گیا خاور مرمت کا خیال

جب مکینوں پر مکاں گرنے لگے


خاقان خاور

No comments:

Post a Comment