گھر ہمارا بھی اگر ہوتا تو گھر میں رہتے
عمر بھر یوں نہ کسی راہگزر میں رہتے
اپنی صورت سے شناسا ہی کہاں ہو پائے
آئینے ہوتے تو ہم اپنی نظر میں رہتے
رات سڑکوں پہ ٹہل کر ہی گزاری ہم نے
اجنبی شہر تھا کس شخص کے گھر میں رہتے
ایک پہچان تھی سو وہ بھی گنوا بیٹھے ہیں
اور اب کتنا زمانے کے اثر میں رہتے
گھر کی وسعت کے لیے کاٹا گیا ہے، ورنہ
چھاؤں بھی ہوتی پرندے بھی شجر میں رہتے
کچھ بھی حاصل نہ ہوا ایک تحیر کے سوا
زندگی بیت گئی شہرِ ہنر میں رہتے
احمد امتیاز
No comments:
Post a Comment