Monday 30 November 2020

گھر ہمارا بھی اگر ہوتا تو گھر میں رہتے

 گھر ہمارا بھی اگر ہوتا تو گھر میں رہتے

عمر بھر یوں نہ کسی راہگزر میں رہتے

اپنی صورت سے شناسا ہی کہاں ہو پائے

آئینے ہوتے تو ہم اپنی نظر میں رہتے

رات سڑکوں پہ ٹہل کر ہی گزاری ہم نے

اجنبی شہر تھا کس شخص کے گھر میں رہتے

ایک پہچان تھی سو وہ بھی گنوا بیٹھے ہیں

اور اب کتنا زمانے کے اثر میں رہتے

گھر کی وسعت کے لیے کاٹا گیا ہے، ورنہ

چھاؤں بھی ہوتی پرندے بھی شجر میں رہتے

کچھ بھی حاصل نہ ہوا ایک تحیر کے سوا

زندگی بیت گئی شہرِ ہنر میں رہتے


احمد امتیاز

No comments:

Post a Comment